مری ہوئی خاتون کاخوفناک انتقام ایسی کہانی جس نے سب کو خوف میں مبتلا کردیا
مجھے لوگ دیوانہ کہتے ہیں ۔کوئی اس بات پر یقین ہی نہیں کرتا کہ میں اپنی مری ہوئی بیوی سے باتیں کرتا ہوں ۔وہ مجھ سے ملنے آتی ہے تو مجھے قرار آجاتا ہے۔برسوں بیت گئے ،جوانی بیت گئی اور اب بڑھاپا ڈھل رہا ہے لیکن گلزارہ آج بھی جس روپ میں ملتی ہے وہ سدا جوانی کا شاہکار ہے ۔وہ آتی ہے تو میں شکوہ کرتا ہوں”گل تم مجھے ادھورا کر گئی ہو، تم جب سے میری زندگی سے گئی ہو میرے دل کا مندر سونا ہوگیا ہے....مجھے بھی اپنے پاس لے جاو“ ”اسی لئے مجھے یہاں مت آنے کا کہتے ہو، مجھے معلوم ہے تم میرے بغیر رہ نہیں سکتے، مرنا ایک حقیقت ہے، مگر میری موت حادثاتی نہیں تھی۔ بلکہ جان بوجھ کر میری زندگی کا چراغ گل کر دیاگیا تھا.... میرے قاتلوں کو ایک نہ ایک دن ضرور سزا ملے گی.... اچھا اب میں چلتی ہوں، کل آؤں گی۔“وہ یونہی آتی ،اتنا کچھ کہتی اور واپس چلی جاتی ہے ۔میں ہسپتال کے کوارٹر میں بیٹھا رہ جاتا ہوں ۔ وہ حسین و جمیل دوشیزہ میرے دماغ پر چھا گئی تھی۔ یہ 26 سال پرانی بات ہے جب میں گیٹ کیپر ہوا کرتا تھا۔ وہ ہنڈا گاڑی ڈرائیو کرتی ہوئی آئی تھی.... میری نظریں اس کے مکمل سراپے کا طواف کر رہی تھیں۔ خوب صورت لانبی آنکھیں، لمبی چوٹی، فراخ پیشانی، صاف ستھرا اور قیمتی لباس، وہ ڈرائیونگ سیٹ سے اتری، اس نے پچھلا دروازہ کھولا.... مجھے محسوس ہوا جیسے اسے مدد کی ضرورت ہے۔ میں معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اس کی طرف لپکا۔ صورتحال گھمبیر تھی۔ پچھلی سیٹ پر ایک بزرگ عورت بے ہوشی کے عالم میں تھی۔
”پلیز! انہیں اندر لے جانے میں میری مدد کریں۔ ان پر ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوا ہے۔“ وہ بول کیا رہی تھی، گویا اس کے بولنے سے جیسے موتی جھڑ رہے ہوں.... وہ اکیلی تھی۔ شاید مجبور تھی میں نے بڑھیا کو باہر نکال کر وھیل چیئر پر ڈالا اور اسے ایمرجنسی میں لے آیا۔ ڈاکٹر آن دیوٹی تھے ۔فوراً بڑھایا کی حالت پر کنٹرول پا لیا گیا.... میں اس کے ساتھ رہا۔ غرض اسے میں نے واپس روانگی تک وقت دیا۔ وہ شکریہ ادا کرتی ہوئی چلی گئی.... مگر میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ وہ سراپا محبت، سراپا روشنی، جانے کہاں سے آئی مگر ایک بات میں نے محسوس کی کہ جاتے وقت اس کی آنکھیں کچھ کہنا چاہ رہی تھیں۔ میں صرف اس حسین دوشیزہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ نہ صرف میرے دل میں تھی بلکہ دماغ بھی اس کی طرف لوٹ جاتا۔ صرف اسے سوچنے کا من کرتا۔ میں نے بہت سی حسین عورتیں دیکھیں مگر کبھی دل کی دنیا میں کوئی داخل نہ ہو سکی۔ وہ معصوم اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ میں نے اس کی کار کا نمبر نوٹ کر لیا تھا.... اور مجھے قوی امید تھی کہ وہ دوبارہ ضرور آئے گی اور پھر میری توقع کے عین مطابق وہ اگلے دن اسپتال پھر آئی.... میں گیٹ پر موجود تھا۔ آج گیٹ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔ مگر اس نے بریک لگائے اور باہر نکل آئی۔ ”سینئے.... میری امی کی طبیعت خاصی بگڑ چکی ہے۔ آپ پلیز! میری مدد کریں۔“ میرا دل بے اختیار سا ہو گیا۔ دھڑکن جیسے ایک دم سے فل اسپیڈ سے چل رہی تھی جیسے دل باہر نکل آئے گا۔ ”جی ضرور.... چلیں .... میں ہوں ہی آپ کی خدمت کیلئے....“ میں نے کہا۔ وہ مجھے کار کے اندر بیٹھنے کا کہہ رہی تھی۔ میں دوسری طرف بیٹھ گیا۔ اس نے ایمرجنسی کے سامنے کار روکی۔ میں نے ایک مرتبہ پھر اس بزرگ عورت کو باہر نکالا۔ مگر میرا تجربہ بتا رہا تھا کہ بزرگ عورت یا تو دنیا سے جا چکی ہے یا اس کے زندہ بچنے کے چانسز ہی نہیں ہیں۔ بہر حال ہم اسے اندر لے گئے.... میرا شک یقین میں بدل گیا۔ بڑھیا کی حرکت قلب بند ہو چکی تھی۔ یہ بہت دکھ بھری بات تھی۔ لڑکی رو پڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ میرا دل بھر آیا۔ دل چاہتا تھا کہ وہ صرف مسکراتی رہے۔ پتہ نہیں کہ کیوں میرا دل پسیج گیا اور میں نے ہمدردانہ اور پیار بھرے انداز سے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا.... ”حوصلہ کریں۔ اور ہمت سے کام لیں۔“ نجانے کیوں میرا دل اندر سے دکھی ہو گیا تھا۔ اس دن میں نے ایمبولینس میں اس کی والدہ کی ڈیڈ باڈی کو گھر تک پہنچایا۔ بارعب اور خوبصورت گھر، اعلیٰ رہائش گاہ تھی۔ مگر چند ایک لوگ ہی وہاں موجود تھے۔ تھوڑی دیر بعد جنازہ آخری منزل کی طرف بڑھا، میں نے خود اس کی والدہ کو لحد میں اتارا۔ میں واپس آ گیا.... وہ اداس بیٹھی تھی، آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے.... یہ رات کا وقت تھا۔ لوگ جا چکے تھے۔ وہاں صرف ایک کام کرنے والی ملازمہ تھی.... میں نے ملازمہ سے پوچھا۔” جو فوت ہوئی ہیں وہ کون ہیں اور ان کے علاوہ اور کون کون یہاں رہتا ہے؟“ ”صاحب زمرد خان.... امریکہ میں رہتے ہیں۔ گل زارا بی بی کے منگیتر.... مگر سنا ہے کہ انہوں نے کسی میم سے شادی کر لی ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی بھی نہیں، گل بی بی کا، گل بی بی کی والدہ تھیں جو ہارٹ کی مریض تھیں“ یہ کہہ کر ملازمہ چائے بنانے چلی گئیں۔ جبکہ میں نے گل سے اجازت چاہی.... ”مجھے اجازت دیں.... آپ کی امی کا شدید دکھ ہوا، اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے....“ ”آپ درد مند آدمی ہیں، میں تو آپ کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکتی۔ میری امی کی آخری رسومات کسی مرد سے ادا ہونی تھی اور بدقسمتی سے ہمارے خاندان میں مرد تھے ہی نہیں.... میں آپ کی احسان مند رہوں گی۔“ ”کون سا شکریہ اور کون سا احسان.... انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ آپ پلیز! کھانا کھالیں۔ جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔“ ”مگر میری امی بہت اچھی تھیں.... میں ان کے ساتھ ہی کھانا کھاتی تھی۔ اکیلے کھانے کی عادت نہیں....“ پھر ہم جیسے ایک دوسرے کیلئے ضرورت بن گئے۔ وہ بہت بڑے بزنس کی واحد مالک تھی۔ میری نئی زندگی شروع ہو گئی۔ اس نے مجھے اپنی فیکٹری کا وزٹ کرایا.... عید پر بہترین شاپنگ کرائی.... ہم بہت خوش تھے۔ ”اگر تم میری زندگی میں نہ ہوتے تو شاید میں زندہ نہ رہ پاتی، تم میرے لئے زندگی کا واحد سہارا ہو۔ خدا نے شاید ہمیں اس طرح ملانا تھا۔” اس نے کہا۔ ”نہیں.... مگر مجھے صرف ایک چیز کا ڈر رہتا ہے کہ کبھی تم بدل نہ جاؤ۔ تم امیر خاندان سے اور میں ایک عام سا گیٹ کیپر۔“ میں نے کہا۔ اس نے کار روک دی۔”تم مجھے سمجھ نہ سکے۔ انسان کی اصل شخصیت اس کے کردار سے سامنے آتی ہے ۔ ورنہ آج کل لالچ اور ہوس زدہ لوگوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ لوگ ایک عام عورت کو چاہے وہ کتنی بھی طاقتور نہ ہو اسے لوٹ کھسوٹ کا مال سمجھتے ہیں اور تم ان سب سے الگ ہو....!“ غرض محبت کا سہانا شروع ہوا.... وہ آزاد خیال مگر باحیا لڑکی تھی، با کردار اور سلجھی ہوئی....! اس کی مختصر کہانی کچھ یوں تھی۔ میرا نام گل زارا، باپ بہت بڑا بزنس مین، والدین کی اکلوتی اولاد، کزن زمرد خان زندگی میں پہلا مرد مگر منگنی کے بعد امریکہ جا کے کسی گوری میم سے شادی رچالی اور پھر واپسی نہ ہوئی۔ ہم بہت جلد ایک ہو گے۔ وہ میری زندگی کے سہانے اور خوب صورت دن تھے۔ ہم مری گئے۔ مری کے دن کبھی بھولتے ہی نہیں.... زمرد خان ایک عیاش اور بگڑا ہوا رئیس تھا۔ اس نے آنٹی کی خبر سنی تو اسے بھی افسوس کرنے کا خیال آیا۔ اس نے گھر کے نمبر پر لینڈ لائن سے کال کی۔ ”ہیلو.... گل.... میں زمرد خان بول رہا ہوں۔“ گل کو اس کے نام سے بھی نفرت تھی، ایک لاوا تھا وج اس کے اندر پکا ہوا تھا۔ وہ جو اسے بیج راہوں میں چھوڑ گیا تھا۔ اسے تنہا کرنے والا، معاشرے کے حوالے کر کے خود عیاشی کرنے والا شخص آج اسے کیونکر یاد آ گئی تھی۔ وہ پھٹ پڑی۔ ”تم میری ماں کے قاتل ہو۔ تمہاری وجہ سے میری دنیا اجڑ گئی، زمرد خان.... تم میری نظر میں کتنے اونچے تھے،مگر کیوں کیا ایسا؟ بہتر ہو گا کبھی دوبارہ فون نہ کرنا.... مر گئے تمہارے سب رشتے.... اور ہاں میں نے شادی کر لی ہے اور اخلاقی طور پر میں کسی اجنبی سے بات کرنے سے قاصر ہوں....“ اور گل زارا نے کریڈل دبا دیا۔ میرے منع کرنے کے باوجود گل نے ساری جائیداد میرے نام کر دی.... زندگی خوب صورت چل رہی تھی کہ زمرد خان امریکہ سے واپس آ گیا۔ وہ اپنی انسلٹ برداشت نہ کر سکا.... ایک اجنبی نمبر سے اس نے گل زارا کو دھمکی دی۔ ”تم میرے ہاتھوں ہی مرو گی۔ میں اپنی انسلٹ کا بدلہ ضرور لوں گا۔“ گل گھبرا گئی اس نے ساری بات مجھے بتائی۔ مگر اگلے روز ہم دونوں کار میں آفس جا رہے تھے کہ ایک بہت بڑے ٹرک کی ٹکر نے ہمیں گھائل کے رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں گل لقمہ اجل بن گئی.... میں دیوانہ ہو گیا.... پاگلوں کی طرح سڑکوں پر گھومتا، میرا دماغی توازن بگڑ گیا۔ پھر میرے آفس کے مینجر نے مجھے اسپتال میں داخل کرادیا.... میں ٹھیک نہیں ہونا چاہتا تھا مگر پتہ نہیں کیوں مجھے سکون ملنا شروع ہو گیا تھا۔آخری لمحے گل نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ آئے گی ضرور۔ اور پھر ایسا ہی ہوا وہ واقعی ہر روز آتی تھی۔ میری حالت سنبھلنے لگی۔ اس نے میری زندگی میں ایک نئے انداز سے قدم رکھا تھا، وہ ہر رات میرے پاس آتی۔ اور آج تک آتی ہے اور ہاں....میں نے اس ٹرک ڈرائیور کو پکڑوایا جس نے ہماری گاڑی کو ٹکر ماری تھی۔ٹرک ڈرائیور نے زمرد خان کا نام لیا۔ اس کام کےلئے اس نے کچھ دن تک مخبری کی اور پھر موقع محل کے مطابق بھرپور ٹکر ماری۔میں نے زمرد خان کو ڈھونڈا مگر مجھے گل زارا نے روک دیا.... ”حیات میں اس سے خود انتقال لوں گی، اور ایسا انتقام کہ وہ نہ مر سکے گا اور نہ جی سکے گا۔“ اور پھر ایک دن زمرد خان کا بھر پور حادثہ ہوا۔ اس کی اپنی خود کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کیلئے ضائع وہ گئیں۔کچھ عرصہ بعد اس کی دونوں آنکھیں ختم ہو گئیں، کسی نے تیزاب ڈال کر اس کا چہرہ بگاڑ دیا۔ انہیں دنوں اس کی بیوی آئی۔ شوہر سے خلع لیا۔ جبکہ ساری دولت پہلے ہی اس کے نام تھی۔آج کل زمرد خان بھیک مانگتا ہے۔ پچیس سال سے یہ ایسے ہی بھیک مانگتا نظر آ رہا ہے ہسپتال کے باہر.... اور میں جو بیوی کی فیکٹریوں کا مالک تھا،اس نے بھی سب کچھ چھوڑ دیا۔ جس کی دولت تھی وہ چلی گئی۔ دولت اگر کسی کے کام نہ آئے تو فائدہ.... میں نے گل زارا کے نام ایک فلاحی ٹرسٹ کھول دیاہے۔ اور ساری دولت رفاحی ادارے کے نام کر دی ہے۔ ایک یتیم خانہ بھی کھولا ہے۔ دولت یا تو ایمان کی ہے یا محبت کی.... محبت کے دم سے ہی دنیا کے سارے رنگ قائم ہیں۔ ہاں آخری بات۔زمرد خان کو اس حالت میں گل زارا کے انتقام نے پہنچایا ہے.... اس نے ایک ٹرک سے ہی حادثہ کیا۔پہلے اپاہج ہوااور پھر گل نے اسکی آنکھیں بھی چھین لیں۔ وہ بھیک مانگ کراپنی زندہ لاش کو گھسیٹ رہا ہے-
”پلیز! انہیں اندر لے جانے میں میری مدد کریں۔ ان پر ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوا ہے۔“ وہ بول کیا رہی تھی، گویا اس کے بولنے سے جیسے موتی جھڑ رہے ہوں.... وہ اکیلی تھی۔ شاید مجبور تھی میں نے بڑھیا کو باہر نکال کر وھیل چیئر پر ڈالا اور اسے ایمرجنسی میں لے آیا۔ ڈاکٹر آن دیوٹی تھے ۔فوراً بڑھایا کی حالت پر کنٹرول پا لیا گیا.... میں اس کے ساتھ رہا۔ غرض اسے میں نے واپس روانگی تک وقت دیا۔ وہ شکریہ ادا کرتی ہوئی چلی گئی.... مگر میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ وہ سراپا محبت، سراپا روشنی، جانے کہاں سے آئی مگر ایک بات میں نے محسوس کی کہ جاتے وقت اس کی آنکھیں کچھ کہنا چاہ رہی تھیں۔ میں صرف اس حسین دوشیزہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ نہ صرف میرے دل میں تھی بلکہ دماغ بھی اس کی طرف لوٹ جاتا۔ صرف اسے سوچنے کا من کرتا۔ میں نے بہت سی حسین عورتیں دیکھیں مگر کبھی دل کی دنیا میں کوئی داخل نہ ہو سکی۔ وہ معصوم اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ میں نے اس کی کار کا نمبر نوٹ کر لیا تھا.... اور مجھے قوی امید تھی کہ وہ دوبارہ ضرور آئے گی اور پھر میری توقع کے عین مطابق وہ اگلے دن اسپتال پھر آئی.... میں گیٹ پر موجود تھا۔ آج گیٹ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔ مگر اس نے بریک لگائے اور باہر نکل آئی۔ ”سینئے.... میری امی کی طبیعت خاصی بگڑ چکی ہے۔ آپ پلیز! میری مدد کریں۔“ میرا دل بے اختیار سا ہو گیا۔ دھڑکن جیسے ایک دم سے فل اسپیڈ سے چل رہی تھی جیسے دل باہر نکل آئے گا۔ ”جی ضرور.... چلیں .... میں ہوں ہی آپ کی خدمت کیلئے....“ میں نے کہا۔ وہ مجھے کار کے اندر بیٹھنے کا کہہ رہی تھی۔ میں دوسری طرف بیٹھ گیا۔ اس نے ایمرجنسی کے سامنے کار روکی۔ میں نے ایک مرتبہ پھر اس بزرگ عورت کو باہر نکالا۔ مگر میرا تجربہ بتا رہا تھا کہ بزرگ عورت یا تو دنیا سے جا چکی ہے یا اس کے زندہ بچنے کے چانسز ہی نہیں ہیں۔ بہر حال ہم اسے اندر لے گئے.... میرا شک یقین میں بدل گیا۔ بڑھیا کی حرکت قلب بند ہو چکی تھی۔ یہ بہت دکھ بھری بات تھی۔ لڑکی رو پڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ میرا دل بھر آیا۔ دل چاہتا تھا کہ وہ صرف مسکراتی رہے۔ پتہ نہیں کہ کیوں میرا دل پسیج گیا اور میں نے ہمدردانہ اور پیار بھرے انداز سے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا.... ”حوصلہ کریں۔ اور ہمت سے کام لیں۔“ نجانے کیوں میرا دل اندر سے دکھی ہو گیا تھا۔ اس دن میں نے ایمبولینس میں اس کی والدہ کی ڈیڈ باڈی کو گھر تک پہنچایا۔ بارعب اور خوبصورت گھر، اعلیٰ رہائش گاہ تھی۔ مگر چند ایک لوگ ہی وہاں موجود تھے۔ تھوڑی دیر بعد جنازہ آخری منزل کی طرف بڑھا، میں نے خود اس کی والدہ کو لحد میں اتارا۔ میں واپس آ گیا.... وہ اداس بیٹھی تھی، آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے.... یہ رات کا وقت تھا۔ لوگ جا چکے تھے۔ وہاں صرف ایک کام کرنے والی ملازمہ تھی.... میں نے ملازمہ سے پوچھا۔” جو فوت ہوئی ہیں وہ کون ہیں اور ان کے علاوہ اور کون کون یہاں رہتا ہے؟“ ”صاحب زمرد خان.... امریکہ میں رہتے ہیں۔ گل زارا بی بی کے منگیتر.... مگر سنا ہے کہ انہوں نے کسی میم سے شادی کر لی ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی بھی نہیں، گل بی بی کا، گل بی بی کی والدہ تھیں جو ہارٹ کی مریض تھیں“ یہ کہہ کر ملازمہ چائے بنانے چلی گئیں۔ جبکہ میں نے گل سے اجازت چاہی.... ”مجھے اجازت دیں.... آپ کی امی کا شدید دکھ ہوا، اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے....“ ”آپ درد مند آدمی ہیں، میں تو آپ کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکتی۔ میری امی کی آخری رسومات کسی مرد سے ادا ہونی تھی اور بدقسمتی سے ہمارے خاندان میں مرد تھے ہی نہیں.... میں آپ کی احسان مند رہوں گی۔“ ”کون سا شکریہ اور کون سا احسان.... انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ آپ پلیز! کھانا کھالیں۔ جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔“ ”مگر میری امی بہت اچھی تھیں.... میں ان کے ساتھ ہی کھانا کھاتی تھی۔ اکیلے کھانے کی عادت نہیں....“ پھر ہم جیسے ایک دوسرے کیلئے ضرورت بن گئے۔ وہ بہت بڑے بزنس کی واحد مالک تھی۔ میری نئی زندگی شروع ہو گئی۔ اس نے مجھے اپنی فیکٹری کا وزٹ کرایا.... عید پر بہترین شاپنگ کرائی.... ہم بہت خوش تھے۔ ”اگر تم میری زندگی میں نہ ہوتے تو شاید میں زندہ نہ رہ پاتی، تم میرے لئے زندگی کا واحد سہارا ہو۔ خدا نے شاید ہمیں اس طرح ملانا تھا۔” اس نے کہا۔ ”نہیں.... مگر مجھے صرف ایک چیز کا ڈر رہتا ہے کہ کبھی تم بدل نہ جاؤ۔ تم امیر خاندان سے اور میں ایک عام سا گیٹ کیپر۔“ میں نے کہا۔ اس نے کار روک دی۔”تم مجھے سمجھ نہ سکے۔ انسان کی اصل شخصیت اس کے کردار سے سامنے آتی ہے ۔ ورنہ آج کل لالچ اور ہوس زدہ لوگوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ لوگ ایک عام عورت کو چاہے وہ کتنی بھی طاقتور نہ ہو اسے لوٹ کھسوٹ کا مال سمجھتے ہیں اور تم ان سب سے الگ ہو....!“ غرض محبت کا سہانا شروع ہوا.... وہ آزاد خیال مگر باحیا لڑکی تھی، با کردار اور سلجھی ہوئی....! اس کی مختصر کہانی کچھ یوں تھی۔ میرا نام گل زارا، باپ بہت بڑا بزنس مین، والدین کی اکلوتی اولاد، کزن زمرد خان زندگی میں پہلا مرد مگر منگنی کے بعد امریکہ جا کے کسی گوری میم سے شادی رچالی اور پھر واپسی نہ ہوئی۔ ہم بہت جلد ایک ہو گے۔ وہ میری زندگی کے سہانے اور خوب صورت دن تھے۔ ہم مری گئے۔ مری کے دن کبھی بھولتے ہی نہیں.... زمرد خان ایک عیاش اور بگڑا ہوا رئیس تھا۔ اس نے آنٹی کی خبر سنی تو اسے بھی افسوس کرنے کا خیال آیا۔ اس نے گھر کے نمبر پر لینڈ لائن سے کال کی۔ ”ہیلو.... گل.... میں زمرد خان بول رہا ہوں۔“ گل کو اس کے نام سے بھی نفرت تھی، ایک لاوا تھا وج اس کے اندر پکا ہوا تھا۔ وہ جو اسے بیج راہوں میں چھوڑ گیا تھا۔ اسے تنہا کرنے والا، معاشرے کے حوالے کر کے خود عیاشی کرنے والا شخص آج اسے کیونکر یاد آ گئی تھی۔ وہ پھٹ پڑی۔ ”تم میری ماں کے قاتل ہو۔ تمہاری وجہ سے میری دنیا اجڑ گئی، زمرد خان.... تم میری نظر میں کتنے اونچے تھے،مگر کیوں کیا ایسا؟ بہتر ہو گا کبھی دوبارہ فون نہ کرنا.... مر گئے تمہارے سب رشتے.... اور ہاں میں نے شادی کر لی ہے اور اخلاقی طور پر میں کسی اجنبی سے بات کرنے سے قاصر ہوں....“ اور گل زارا نے کریڈل دبا دیا۔ میرے منع کرنے کے باوجود گل نے ساری جائیداد میرے نام کر دی.... زندگی خوب صورت چل رہی تھی کہ زمرد خان امریکہ سے واپس آ گیا۔ وہ اپنی انسلٹ برداشت نہ کر سکا.... ایک اجنبی نمبر سے اس نے گل زارا کو دھمکی دی۔ ”تم میرے ہاتھوں ہی مرو گی۔ میں اپنی انسلٹ کا بدلہ ضرور لوں گا۔“ گل گھبرا گئی اس نے ساری بات مجھے بتائی۔ مگر اگلے روز ہم دونوں کار میں آفس جا رہے تھے کہ ایک بہت بڑے ٹرک کی ٹکر نے ہمیں گھائل کے رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں گل لقمہ اجل بن گئی.... میں دیوانہ ہو گیا.... پاگلوں کی طرح سڑکوں پر گھومتا، میرا دماغی توازن بگڑ گیا۔ پھر میرے آفس کے مینجر نے مجھے اسپتال میں داخل کرادیا.... میں ٹھیک نہیں ہونا چاہتا تھا مگر پتہ نہیں کیوں مجھے سکون ملنا شروع ہو گیا تھا۔آخری لمحے گل نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ آئے گی ضرور۔ اور پھر ایسا ہی ہوا وہ واقعی ہر روز آتی تھی۔ میری حالت سنبھلنے لگی۔ اس نے میری زندگی میں ایک نئے انداز سے قدم رکھا تھا، وہ ہر رات میرے پاس آتی۔ اور آج تک آتی ہے اور ہاں....میں نے اس ٹرک ڈرائیور کو پکڑوایا جس نے ہماری گاڑی کو ٹکر ماری تھی۔ٹرک ڈرائیور نے زمرد خان کا نام لیا۔ اس کام کےلئے اس نے کچھ دن تک مخبری کی اور پھر موقع محل کے مطابق بھرپور ٹکر ماری۔میں نے زمرد خان کو ڈھونڈا مگر مجھے گل زارا نے روک دیا.... ”حیات میں اس سے خود انتقال لوں گی، اور ایسا انتقام کہ وہ نہ مر سکے گا اور نہ جی سکے گا۔“ اور پھر ایک دن زمرد خان کا بھر پور حادثہ ہوا۔ اس کی اپنی خود کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کیلئے ضائع وہ گئیں۔کچھ عرصہ بعد اس کی دونوں آنکھیں ختم ہو گئیں، کسی نے تیزاب ڈال کر اس کا چہرہ بگاڑ دیا۔ انہیں دنوں اس کی بیوی آئی۔ شوہر سے خلع لیا۔ جبکہ ساری دولت پہلے ہی اس کے نام تھی۔آج کل زمرد خان بھیک مانگتا ہے۔ پچیس سال سے یہ ایسے ہی بھیک مانگتا نظر آ رہا ہے ہسپتال کے باہر.... اور میں جو بیوی کی فیکٹریوں کا مالک تھا،اس نے بھی سب کچھ چھوڑ دیا۔ جس کی دولت تھی وہ چلی گئی۔ دولت اگر کسی کے کام نہ آئے تو فائدہ.... میں نے گل زارا کے نام ایک فلاحی ٹرسٹ کھول دیاہے۔ اور ساری دولت رفاحی ادارے کے نام کر دی ہے۔ ایک یتیم خانہ بھی کھولا ہے۔ دولت یا تو ایمان کی ہے یا محبت کی.... محبت کے دم سے ہی دنیا کے سارے رنگ قائم ہیں۔ ہاں آخری بات۔زمرد خان کو اس حالت میں گل زارا کے انتقام نے پہنچایا ہے.... اس نے ایک ٹرک سے ہی حادثہ کیا۔پہلے اپاہج ہوااور پھر گل نے اسکی آنکھیں بھی چھین لیں۔ وہ بھیک مانگ کراپنی زندہ لاش کو گھسیٹ رہا ہے-
Good Story Bro Please Upload the next episode jinnat story plz plz plz
ReplyDeleteOk ok ma upload Kerna bhool gaya ta sorry aj he next episode upload ho gaye ga
ReplyDelete